عجیب رات تھی ۔مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا میں کیا کروں۔شادی کی پہلی رات ہی اس نے مجھے کہا تھا کہ مجھے ہاتھ مت لگانا میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں ۔تم کچھ بھی کر لو مگر میری محبت نہ حاصل کر پاو گے۔اس کی انکھوں میں آنسو تھے۔۔ میں اٹھا اور وضو کیا اور نماز کے لئے چلا گیا ۔اور اپنے اللہ سے ذکر کیا ۔یہ کیسا امتحاں ہے ۔مجھے ڈر تھا ۔اگر یہ صبح گھر گئی
اور واپس نہ آئی تو میری عزت کا کیا ہو گیا ۔ یہ گھر میں یہ ہی نہ کہہ دے کہ یہ نا م رد ہے ۔ اک بار تو سوچا کہ زب ردس تی کرتا ہوں ۔گ ن اہ نہیں میرے نکاح میں ہے۔مگر دل نہیں مانا ۔میں نے اس سے بات کرنا چاہی۔مگر دل نہیں مانا میرا کہ میں اس کی منت کروں میں سو گیا۔اگر اسے کسئ اور سے محبت تھی تو نکاح کے لئے ہاں ہی نہ کرتئ یا مجھے ہی بتا دیتی میں اس سے رشتہ ختم کر دیتا۔میری زندگی برباد تو نہ ہوتی ۔میں شادی پر ساری ج م ع پونجی لگا چکا تھا صبح وہ اپنے گھر چلی گی کوئی بات نہیں ہوئی۔3 دن تک کوئی ہلچل نہیں ہوئی ۔3 دن بعد اس کی امی کی کال ائی تو میں لینے چلا گیا ۔میں نے وہاں بھی کوئی بات نہیں
کی ۔وہ رات کو فون پر کسی سے باتیں کرتئ تھی ۔میں نے پوچھا تک نہیں میں نے اس سارے وقت میں بس اک بار پوچھا تھا کہ طل اق چاہیے اس نے کہا نہیں۔ اس کا فون پر جو عش ق تھا اس کا مجھے کوئی مطلب نہیں تھا ۔7 ماہ ایسے ہی گزر گے ۔ اک دن اس نے پوچھا اک بات پوچھوں میں نے کہا پوچھ لو۔اس نے کہا کیا اپ کو مجھے دیکھ کر ط لب نہیں ہوتی۔میں نے کہا۔25 سال ک نڑول رکھا ۔تو تجھے کیا لگتا ۔اب نہیں رکھ سکتا ۔ مگر آج بات کچھ اور تھی ۔میرے دوست نے مجھ سے کہا کہ تمہاری بی وی کسی اور مرد کے ساتھ کسی ہوٹل میں بیٹھی تھی۔مجھے آج اس پر غ صہ آ رہا تھا ۔میں نے اس کی عزت رکھئ اس نے میری عزت نہ رکھی۔
میں گھر کی طرف چل دیا۔اس کو آواز دی ۔اور اک ایسا زور دار تھپڑ مارا کہ میری انگ لیاں اس کے منہ پر چھپ گئ۔اس کو کہا اب تم اپنے گھر جاو۔اور اج سے میرئ طرف سے آزاد ہو۔طلاق چاہیے ہو تو کہہ دینا ۔ مگر میرے ساتھ میرے گھر میں نہیں رہ سکتی ۔ وہ عورت آج بھی اپنے گھر ہے ۔طلاق نہیں مانگی اس نے ۔ جس کے عشق میں وہ پاگل تھی اس نے اس کو اپنایا ہی نہیں اور بھاگ گیا ۔۔۔۔اک دن روتئ ہوئے اسکی کال آئی تھی کہ مجھے اپنے نام سے مح روم نہ کرنا بس بھلے ہی مجھے اپنے پاس جگہ نہ دو لیکن ط ل اق مت دینا۔ بس اک آخری خواہش پوری کر دو۔ میں نے اسکی خواہیش کا احترام کیا ط ل اق نہیں دی۔اس کے بعد مجھے تین سے چار سال لگے خود کو نارمل انسان بنانے میں عورت پر یقین کرنے میں کہ ہر عورت اک جیسی نہیں ہوتی۔پھر آخر میں نے دوسری ع ورت سے شادی کر لی۔
اب میرے 3 بچے ہیں میری یہ والی بیوی بہت ہی نیک نکلی۔پتا نہیں وہ دو تین سال جو میں نے حوصلے سے گزارے اس کی وجہ سے۔ اللہ نے انعام کی صورت میں دیا کہ میں اب تھوڑی سی بھی ہمدردی کو بہت بڑی بات سمجھنے لگا تھا ۔میں زرا سا بھی پریشان ہو جاوں تو میری بیوی کی نیندیں اڑ جاتی ہیں اس کو مجھے سے عشق ہے اور بے انتہا عشق۔ اک وہ پہلی عورت اک یہ عورت میں تو وہی تھا وہی ہوں۔ میری پہلے والی بیوی اب پاگل ہو چکی ہے ۔میرے نام لکھ لکھ کر چومتی رہتی ہے۔ اور گلیوں میں پھرتی رہتی ہے۔ اسے اپنی ہوش ہی نہیں رہی اب۔لوگ اب بھی کہتے ہیں میں ظ الم ہو اس پر ظل م اتنے کیے کہ وہ پا گ ل ہو گی۔اب میں کیا کہوں لوگوں سے۔ح رام محبت کا مقدر ذلت ہی ہوتی ہے۔ھوش کرو۔ ح رام محبت کا مقدر ذلت ہے بس ذ لت۔
اپنی رائے کا اظہار کریں