قسم ہے دوڑنے والے گھوڑوں کی ہانپتے ہوئے اور آگ نکالنے والوں کی ٹاپ مارتے ہوئے اور حملہ کرنے والے صبح کے وقت، پھر اُڑایا صبح کے وقت غبار اور پھر اس غبار کے ساتھ لشکر کے بیچ میں گھس گئے۔ بے شک انسان اپنے رب کا سخت ناشکرا ہے اور وہ مال کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے۔ کیا وہ جانتا نہیں جب قبروں سے سب کچھ نکال باہر کیاجائے گا ۔اور جو کچھ سینوں میں(راز) ہیں، انہیں ظاہر کردیا جائے گا۔اس بارے میں اختلاف ہے کہ ‘عادیات’ سے مراد گھوڑے ہیں یا اونٹ۔ حضرت علی، ابن مسعود اور محمد بن کعب
وغیرہ کا خیال ہے کہ اس سے مراد حاجیوں کے اُونٹ ہیں جو عرفہ سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے منیٰ دوڑتے پھرتے ہیں۔ ابن عباس، حسن اور فراء کے نزدیک اس سے مجاہدین کے گھوڑے مراد ہیں۔دوسرا قول درج ذیل چند وجوہ کی بنا پر صحیح ہے :ضَبْح: لغت میں گھوڑے کے ہانپنے کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ اس وقت بولا جاتاہے جب تیز رفتاری اور دوڑ کی وجہ سے گھوڑے کا سانس پھول جاتاہے او رایک قسم کی آوازاس کے سینے سے نکلتی ہوئی سنی جاتی ہے۔یہ آواز صہیل، حمحمہ (ہنہنانے) کے علاوہ ہے۔ٹاپو سے آگ نکالنا بھی گھوڑے کے ساتھ خاص ہے۔ اونٹ کے قدم اپنی نرمی اور ڈھیلے پن کی بنا پردوڑتے ہوئے آگ نکال ہی نہیں سکتے۔تیز روی میں گھوڑوں سے غبار زیادہ اُڑتا ہے۔اَثَرْنَ بِه: بہ کی ضمیر سے مراد وہ مکان ہے جس میں گھوڑے د
وڑتے ہیں۔ یہ غبار زیادہ تر اس وقت اُڑتا ہے جبکہ گھوڑے دشمن کی صفیں چیرتے ہوئے درمیان میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس وقت حرکت و جولانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ گھوڑوں سے مراد لڑنے والے گھوڑے ہیں جن کو عرب اپنی لڑائیوں میں استعمال کرتے تھے۔ خاص مجاہدین کے گھوڑے بطورِ مثال کے یہاں بیان کئے جاسکتے ہیں۔ بلکہ مجاہدین کی سواریاں اپنے شرف و فضل کی بنا پر ‘العادیات’ کے مصداق بننے کی زیادہ مستحق ہیں۔ سلسلہ قسم میں گھوڑے کے ذکر سے مقصود یہ ہے کہ اس جانور کی پیدائش بھی اللہ تعالیٰ کی روشن نشانیوں میں سے ہے۔ اس کے ذریعہ سے عزت و نصرت اور فتح و کامرانی حاصل ہوتی ہے۔ اس کی تیز رفتاری سے انسان اپنے مطلوب کو حاصل کرلیتاہے۔ دشمنوں پر قابوپالیتا اور جنگوں میں اس سے خوب کام لیتا ہے۔ قرآن میں دوسری جگہ اونٹوں کا ذکربطورِ نعمت کیا گیا ہے کہ وہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک تمہارے سامان کو لئے پھرتے ہیں۔ اُونٹ زیادہ تر بوجھ اٹھانے کے
لئے ہیں اور گھوڑے فتح و نصرت دلانے کے لئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ان دونوں نعمتوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔سورة العاديات حملہ کرنے کے لئے صبح کے وقت کو خاص طور پر اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت دشمن اپنی جگہ سے منتشر نہیں ہوسکتا کیونکہ دشمن پر ایسے وقت میں غفلت و سستی چھائی ہوتی ہے جبکہ حملہ آور آرام و راحت کے بعد حملہ کے لئے پوری طرح چاق و چوبند ہوجاتا ہے ۔اسی لئے حدیث میں بھی ہے کہ رسول اللہﷺ جب کسی بستی پرحملہ کاارادہ رکھتے تو صبح تک انتظار کرتے۔ اگر موذن کی آواز سنائی دیتی تو حملہ سے رک جاتے ورنہ حملہ کردیتے۔حضرت علی ؓ کا فرمان ہے :خدا کے نزدیک کسی انسان کی عزت جتنی زیادہ ہوتی جاتی ہے ، اس کا امتحان بھی اس قدر سخت ہوتا چلاجاتا ہے یہ ایسا عمل ہے جس کی برکت سے اور اللہ کے حکم سے رزق کے تین سو دروازے کھل جائیں گے ،دولتمند ہونا،زیادہ رزق کا ہونا اللہ کے ہاں کوئی بڑی بات نہیں اللہ دولت والے کو اور غریب کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتا ہے ا للہ کی طرف جوراستے جاتے ہیں ان میں دولت سب سے آخری راستہ ہے کوئی بھی انسان یہ نہ سوچے کہ اللہ نے اسے بہت زیادہ رزق
دے دیا ہے تو وہ اللہ اس سے راضی ہوجاتا ہے ایسا بالکل نہیں ہوتا دراصل انسان لالچ کا سمند ر لے کر دنیا میں آیا ہے کیا کبھی آپ نے کسی آدمی کی قبر دیکھی ہے کہ یہ بڑا دولتمند تھا اس کی قبر پر دعا کر دو ایسا نہیں ہوتا کہ انسان دولت کی وجہ سے اللہ کے ہاں اعلی مقام حاصل کرلے بلکہ اللہ کے ہاں ترقی کا راستہ تقویٰ اور عبادت ہے ۔ اللہ نے آپ کو جتنا بھی عطا کیا ہے کوشش کریں کہ اس میں سے کچھ نہ کچھ غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کریں اور اللہ کی رحمت کا معجزہ دیکھیں کہ کس طرح وہ آپ کے رزق اور دولت میں برکت عطا فرماتا ہے یہ وظیفہ آپ نے نمازِ مغرب کے بعد کرنا ہے اور سورۃ العادیات کو 11 مرتبہ پڑھنا ہے 2 مرتبہ درودپاک پڑھنا ہے آخرمیں اللہ پاک سے دعا مانگنی ہے اس عمل کو 7 روز تک کرنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ اللہ آپ کے لئے غیب سے رزق کے تمام دروازے کھول دے گا۔ آپ گھر میں جس طرف نظر گھماؤ گے رزق اور دولت ہی نظر آئے گی۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔آمین
اپنی رائے کا اظہار کریں