کی کمزوری تو ثابت ہے کہ اب تک کی تاریخ میں وہ مرد سے ہارتی ہی چلی آ رہی ہے۔ مرد نے اپنے لحاظ سے اینے لحاظ سے ایک مردوادی تاریخ لکھ دی اور عورت کچھ نہ کر سکی۔ مرد نے اسے قابو میں کر لیا اور عورت قابو میں آتی رہی۔ مرد نے عورت کو ایکسپلائٹ کیا اور عورت ایکسپلائٹ ہوتی رہی۔ مرد نے عورت کو پیٹا اور عورت پٹتی رہی۔ پھر مان لینا چاہیے کہ مرد مضبوط اور عورت کمزور ہے۔ لیکن پھر الٹا ہونا شروع ہو گیا۔ عورت نے مرد کی چال
سمجھ لی اور اس سے بغاوت کر دی۔ لیکن کیا اس بغاوت میں اسے وہ سکون مل رہا ہے جس کے لیے اس نے بغاوت کی تھی؟ بغاوت کرنے کے بعد بھی تو وہ مرد ہی کی محتاج ہے۔ مرد ہی سے اس کی جنسی خواہش پوری ہوگی۔ کب تک ’’عورت کے لیے عورت‘‘ کا لیسبین فارمولا کام میں لایا جاتا رہے گا؟ کب تک عورت مرد کی دست برد سے محفوظ رہے گی؟ ظاہر ہے کہ عورت کو مرد کی ضرورت ہے۔ اور مرد کو عورت کی۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔
لیکن حالات کچھ ایسے پیدا ہوگئے ہیں کہ اب مرد کو عورت سے کمپرومائز کرنا پڑے گا۔ اسے اس حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا کہ اب عورت عقلمند ہو گئی ہے۔ وہ بے وقوف نہیں رہی کہ پہلے کی طرح گھر میں چکی پیسے گی اور تکیے پر پھول بنائے گی۔ اب عورت کو عقل آ گئی ہے۔ اب وہ گھر میں غلامی نہیں کرے گی۔ وہ آفس میں جاب کرےگی۔ اور وہاں عشق بھی لڑائے گی۔ اور اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ وہ کتنے مردوں سے جنسی تعلق بناتی ہے۔ فرق اس لیے نہیں پڑے گا کہ اس کا شوہر بھی تو کتنی ہی عورتوں سے جنسی تعلق بناتا ہے۔ اس لیے یہ اب تاریخ کا وہ دور ہے جس میں عورت مرد کو تیر کی طرح سیدھا
کرنے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ وہ مردنام کے جانور کو سدھا لے گی۔ اور قابو میں کر لے گی۔ لیکن پھر بھی نہیں لگتا کہ وہ مرد کو قابو میں کر سکے گی۔ کیونکہ مرد بڑے چالاک ہوتے ہیں۔ ایک ساتھ کئی کئی عورتوں سے جسمانی تعلق رکھ سکتے ہیں بغیر شادی کیے۔ اور عورت کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ فیمی نسٹ مفکرین کہہ سکتے ہیں پھر عورت بھی یہی کرے گی، ایک ساتھ کئی کئی مردوں سے جنسی تعلق بنائے گی اور مرد کو پتا بھی نہیں چلنے دے گی۔ اس انتقام کے چکر میں عورت مرد کو سیدھا کرسکے یا نہ کر سکے
، خاندانی نظام ضرور تباہ ہو جائے گا۔ کیونکہ عورت نے مرد سے ہزاروں سالوں کا انتقام لینے کی ٹھان لی ہے۔ اور مردوں کی ظلم کی چکی کے تلے پسنے والی عورت کا سیلف ریسپکٹ زخمی ہو چکا ہے۔ اور وہ کسی گھائل شیرنی کی طرح خاندانی نظام کے ہر اس ستون پر اور ہر اس بنیاد پر ضرب لگائے گی جس سے اس کے سیلف ریسپکٹ کے واپس ملنے کا امکان ہوگا۔ خاندانی نظام کے تباہ ہونے سے سیلف ریسپکٹ واپس کیسے ملے گا؟ وہ اس طرح کہ مرد کو بچے کی ضرورت ہوتی ہے
۔ وہ بچے کے لیے تڑپے گا لیکن عورت حمل ٹھہرانے کو راضی نہ ہوگی۔ کیونکہ اگر ایک بار عورت کو حمل ٹھہر گیا تو پھر وہ مرد کی غلام بن جاتی ہے، اور اگر غلام نہیں بنتی تو اسے بچے کو اکیلے ڈھونا پڑے
اپنی رائے کا اظہار کریں