اللہ کے عذاب سے محفو ظ رہنا چاہتے ہو تو ان تین باتوں پر عمل کرو

اللہ

حضرت محمد بن منذر ؒ جس وقت روتے تھے تو آنسو کو چہرہ اور داڑھی پرملتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ جہاں پر آنسو لگ جاتے ہیں اس جگہ کو جہنم آگ مس نہیں کرے گی۔ اے ابن آدم ! تجھے یاد رکھنا چاہیے کہ نفس برائی پر ہی اکساتا ہے یہ ابلیس سے بھی بڑھ کر بڑا دشمن ہے۔ شیطان کو تیرے نفسانی شہوتوں اور خواہشوں کے ذریعے طاقت میسر ہوتی ہے۔ پس تو امید اورفریب کے طور پر خود کو دھوکہ نہ دے ۔ نفس کی تو یہ خواہش ہوتی ہے کہ امن اور غفلت اورسستی و کاہلی میں تو رہے۔اگر تو نے وہ چیز پسند کی جس سے فریب و دھوکہ ہوتا ہے

تونے اس کی خواہش یعنی شیطان کی پیروی اختیا رکر لی تو وہ تجھ کو دوزخ میں پہنچا دے گا۔ اور نفس کے واسطے خیر کا کوئی موقع نہیں رہے گا۔ انسان جب طلب آخرت کے پیش نظراپنی گذری ہوئی عمر پر سوچتا ہے تو اس کا یہ فکر اور غور اس کے دل کو صاف کردیتا ہے۔ صاحب عقل شخص کو سابقہ معاصی سے تو بہ کرنی چاہیے ۔ آخرت کی فکر کرے ،باعث نجات بننے والے کام اور اللہ پاک کے قرب کے باعث امور پر سوچے امید تھوڑی رکھے اور توبہ جلدی کرلے اور نفس پر قابورکھے۔ حکیم لقمان نےاپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ نیند اور کھانا کم کرو۔اس میں زیادتی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ جوان دونوں میں زیادتی کرتا ہے روز قیامت اعمال صالح سے خالی دامن ہوگا۔ صاحب عقل شخص کو فاقہ کرنا چاہیے

اور اس کے ذریعے نفسانی خواہشات کو قطع کرنا چاہیے یہ فاقہ کشی دشمن خدا پر قہر ہوتا ہے۔ یادرکھو! شیطان کے آلات شہوات اور کھانے پینے کی کثرت ہیں۔ جو اپنے اعضاء کی زمین کو شہوات کی غذا دیتا ہے وہ اپنے دل میں ندامت وشرمندگی کا درخت اگاتا ہے۔ روز قیامت اللہ کے قریب تر وہ ہوگا جو زیادہ بھوک پیاس کی برداشت کرتا ہوگا۔ اللہ نے تین قسم کی مخلوق بنائی ہے اول:فرشتے پیدا فرمائے اور ان میں عقل رکھی ہے شہوت نہیں رکھی ہے ۔دوم: حیوانات کو پیدا فرمایا ہے۔ اور ان میں شہوت ڈال دی ہے ، عقل نہیں رکھی۔ سوم: انسان پیدا فرمائے اور ان میں عقل رکھی اور ساتھ میں شہوت بھی رکھی ہے۔ تو جس شخص کی شہوت کا اس کی عقل پر غلبہ ہوگیا تو اس سے وہ حیوانات ہی بہتر ہیں اورجس کی شہوت پر اس کی عقل غالب رہتی ہےوہ فرشتوں سے بھی افضل رہتا ہے۔ جوچاہتا ہے کہ اللہ کے عذاب سے محفوظ رہے وہ صرف ان تین باتوں پر عمل کرے۔ اول:آفات دنیا پر صبر کرے۔ دوم: ہمیشہ عبادات خداوندی میں لگا رہے۔ سوم: معاصی بے بچتا رہے۔

Leave a Comment