مکڑی کا جالے سے کیا ہوتا ہے

مکڑی

نبی کریم ﷺ نے ہجرت مدینہ سے قبل تین دن غارِ ثور میں قیام فرمایا تھا۔ جب کفارِ مکہ آپ ﷺ کو تلاش کرتے غار تک پہنچے،تو اللہ کے حکم سے مکڑیاں اس کے دہانے پر جالا بُن چکی تھیں۔ کفارِ مکہ یہ سوچ کر چلے گئے کہ اس غار میں کون آیا ہو گا؟ یوں اللہ تعالیٰ نے مکڑیوں کے ذریعے نبی کریمﷺ-کو دشمنوں سے محفوظ رکھا۔مکڑیوں کا ذکر آتے ہی کچھ لوگوں کے دلوں پر خوف اور ناپسندیدگی کے تاثرات چھا جاتے ہیں

اور بعض تو اس قدر خوفزدہ ہوتے ہیں کہ وہ ایک خاص نام کے ڈر’’آرانو فوبیا‘‘ (Arachnophobia) میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اس ڈر میں مبتلا افراد کو مکڑیوں سے بے انتہا خوف محسوس ہوتا ہے۔ان میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔آئیے آج آپ کو مکڑیوں کے بارے کچھ حیرت انگیز معلومات بتاتے ہیں۔ جن میں سے اکثر آپ نے کبھی نہیں سنی ہوں گی۔1۔مکڑی ایک عجیب الخلقت جانور ہے اس کے آٹھ پاؤں اور چھ آنکھیں ہوتی ہیں ۔ 2۔یہ بہت ہی قناعت پسند جانور ہے۔مگر خدا کی شان کہ سب سے حریص جانور یعنی مکھی اور مچھر اس کی غذا ہیں۔3۔ مکڑی کئی کئی دنوں تک بھوکی پیاسی بیٹھی رہتی ہے مگر اپنے جالے سے نکل کر غذا تلاش نہیں کرتی۔ جب جالے کے اندر کوئی مکھی یا مچھر پھنس جاتا ہے تو یہ اس کو کھا لیتی ہے

ورنہ صبر و قناعت کر کے پڑی رہتی ہے۔4۔مکڑی کے فضائل میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہجرت کے وقت جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غارِ ثور میں تشریف فرما تھے تو مکڑی نے غار کے منہ پر جالا تن دیا تھا اور کبوتری نے انڈے دے دیئے تھے۔ جس کو دیکھ کر کفار واپس چلے گئے کہ اگر غار میں کوئی شخص گیا ہوتا تو مکڑی کا جالا اور انڈا ٹوٹ گیا ہوتا۔5۔ایک تحقیق کے مطابق 50فیصد خواتین اور 10فیصد مرد مکڑی سے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مکڑیوں کی زیادہ تر اقسام انسانوں کے لیے غیر مضر اورغیر زہریلی ہوتی ہیں بلکہ انسان کو-مکڑیوں کی وجہ سے اکثر و بیشتر فائدہ ہی ہوتا ہے۔ 6۔فصلوں اور ان کے قرب و جوار میں پائی جانے والی انواع و اقسام کی مکڑیاں فصل دشمن اور انسان دشمن کیڑوں

کو اپنی خوراک بناتی ہیں ۔اور سب سے بڑھ کر اہم بات یہ کہ مکڑیاں فصلوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی کیونکہ وہ پودوں کے پتے یا زرعی اجناس بالکل نہیں کھاتیں۔7۔کچھ ممالک میں مکڑیاں باقاعدہ خوراک کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔8۔تارنتولا (Tarantola) نامی مکڑی سائز میں ایک فٹ تک بڑی ہوتی ہے۔ اس کی کچھ اقسامتو ایک فٹ سے بھی بڑی ہو سکتی ہیں۔ یہ مکڑی لاطینی امریکا کے ممالک میں کھائی جاتی ہے۔برازیل میں تلی ہوئی تارنتْولا مکڑیاں تھال میں لیے فروخت کرنے والے عام گھوم رہے ہوتے ہیں۔9 ۔مغرب اور ایشیا کے کچھ لوگوں کو تو مکڑیوں سے اس قدرپیار ہے کہ وہ انھیں پالتو جانوروں کی طرح پالتے ہیں۔ جاپان میں بھی یہ شوق عام ہے۔10۔ جاپان ہی میں دنیا کا سب سے بڑا مکڑیوں کا تہوار منایا جاتا ہے۔ 11۔ ایک جاپانی

قصبے میں جس کا نام ’’کاجیکی‘‘ ہے، ہر سال مکڑیوں کی لڑائی کرانے کا مقابلہ منعقد ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے ہاں دیہات اور قصبوں میں مرغوں اور بٹیروں کی لڑائی کرائی جاتی ہے۔ یہ مقابلے صدیوں پرانے ہیں اور تقریباً چھے صدیوں سے ہر سال جاپان کے اس قصبے میں ہو رہےہیں۔ ان مکڑیوں کو ’’سامورائی‘‘ کہا جاتا ہے۔12۔ پاکستان میں بھی یہ خاص قسم کی مکڑیاں جنھیں جاپانی ’’سامورائی سپائڈر ‘‘ کہتے ہیں‘ پائی جاتی ہیں۔زہریلی مکڑی13۔ ’’سڈنی‘ آسٹریلیا کی فنل ویب مکڑی‘‘ Sydney funnel web spider کا شمار زہر یلی ترین-مکڑیوں میں ہوتا ہے۔ اگر اس کے ڈسے کا علاج نہ کیا جائے تو پندرہ منٹ میں انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ 14۔برازیل کی

’’آوارہ گرد مکڑی‘‘ Wandering spiderبھی زہریلے پن میں کسی سے کم نہیں۔ اسے وانڈرنگ سپائیڈر اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ جالا نہیں بنتی اور ایک سے دوسری جگہ گھومتی رہتی ہے۔15۔ 2010ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈزمیں اس آوارہ گرد مکڑی کو دنیا کی سب سے زہریلی مکڑی قرار دیا گیا۔16۔’’سیاہ بیوہ‘‘ (Black widow) بھی قدرے زہریلی مکڑی ہے۔ یہ اپنے ہی نر (خاوند) کو کھا جاتی ہے۔ اسی لیے اس مکڑی کو بیوہ (widow)کہا جاتا ہے۔17۔ویسے تو مکڑیاںصرف کیڑے مکوڑے کھاتی ہیں،لیکن بڑے سائز کی مکڑیاں نہ صرف چوہے اور سانپ تک کھاتی بلکہ موقع ملنے پر پرندوں تک کو ہڑپ کر جاتی ہیں۔18۔پاکستانی قارئین کے لیے خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ خوفناک مکڑیاںکم ہی پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ تارتولا اور سڈنی فنل ویب

پاکستان میں نہیں پائی جاتیں، جہاں تک سیاہ بیوہ کی بات ہے۔کچھ ماہرین حشرات نے اس مکڑی کی پاکستان میں موجودگی کا امکان ظاہر کیا ہے، 19۔مکڑیاں ایک ایسا عجوبہ جاندار ہیں جو قدرت خداوندی کا حسین تحفہ ہیں۔ انھیں اللہ نے انسان کی مدد اور آزمائش کے لیے تخلیق کیا۔20۔کچھ مکڑیاں تو اتنی رنگین اور خوبصورت ہوتی ہیں کہ پتھر سے پتھر دل انسان بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ایسی ہی ایک مکڑی مور مکڑی Spider) (Peacock ہے۔ اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ جیسے مور اپنے پنکھ پھیلا کر دلفریب اور حسین رنگ بکھیرتا ہے، ویسے ہی یہ مکڑی اپنی پیٹھ-کے ایک خاص حصے کو پھیلا کر مور کی طرح اپنے حسین و جمیل رنگ پھیلا دیتی ہے۔ 21۔مکڑی کو اللہ تعالیٰ نے ایک اورحیرت انگیز خوبی سے نوازا ہے، وہ ہے

اس کی ریشم (Silk) پیدا کرنے کی صلاحیت۔ جی ریشم صرف ریشم کا کیڑا ہی نہیں بناتا بلکہ ایک قسم کی مکڑی بھی ریشم بنا تی ہے۔مکڑی کی ریشم مختلف اقسام کی ہوتی ہے۔’’کیلامکڑی‘‘( spider (Banana کی ریشم تو اس قدر مضبوط ہے کہ سٹیل کی مضبوطی اس کے مقابلے میں کم سمجھی جاتی ہے۔ اسی خاصیت کی بنیاد پر سائنسدان اس بات پر تحقیق کر رہے ہیں کہ مکڑی کے ریشم سے انسانی بلٹ پروف لباس تیار کیا جائے۔ یہ ریشم اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ گولی کو بھی روک سکتا ہے۔ اگر اسے مصنوعی پیمانے پر تیار کر کے حفاظتی لباس بنا لیا جائے تو پولیس کو اسلحہ بردار مجرموں سے نمٹنے میں آسانی رہے گی۔ 22۔مکڑیوںمیں مادہ کا سائز عموماً نر کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوتاہے۔ اسی لیے نر اکثر مادہ کی خوراک بن جاتا ہے۔23

۔ ریشم کے کیڑے کی طرح مکڑی سے بھی ریشم حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ وجہ یہ ہے کہ مکڑیاں بڑی تعداد میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں۔ایسی صورت میں یہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا اور اپنی ہی نسل کو کھانا شروع کردیتی ہیں جبکہ ریشم کے کیڑے ہزاروں کی تعداد میں بڑے مزے سے اکٹھے رہتے ہیں۔24۔ مکڑی کی بیشتر اقسام ماحول دوست جاندار ہیں۔ اس کو مارنا نہیں چاہیئے۔ ہا ں اس کے جالے اتار دینے چاہیئے۔25۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آپ نے فرمایا کہ اپنے گھروں سے مکڑیوں کے جالوں کو دور کرتے رہو کہ یہ مفلسی اور ناداری کا باعث ہوتے ہیں۔

Leave a Comment