آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا یعنی لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ان میں اپنے دین پر صبر کرنے والا انگارہ پکڑنے والے کی طرح ہوگا

دین پر صبر کرنے والا

ڈیلی کائنات ! دورِ حاضر قی-امت کی نشانیوں اور اس سے پہلے رونما ہونے والے بے شمار فت-نوں سے لبریز ہے۔ ہر نیا دن نئی علامت قی-امت اور نت نئے فت-نے کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ جس امت کے حقیقی خیر خواہ حضور نبیٔ کریم ﷺ اپنی حیات ِ ظاہری میں دورِ فتن کی ہو-لنا-کیوں کے بارے میں فکر مند رہا کرتے تھے کہ آزمائشوں، پریشانیوں اور فت-نوں کے اس ہولناک زمانہ میں میری امت کہیں راہِ حق سے برگشتہ نہ ہوجائے آج اسی امت کے افراد ان فت-نوں میں پڑ کر اپنے ہی ہاتھوں دین و دیانت، حق و امانت اور باہمی محبت وشرافت کا بے

دریغ ق ت لِ عام کر رہے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے بھائیوں اور بہنوں تک رحمتِ عالم ﷺ کے وہ ارشادات پہنچائے جائیں جن میں پیارے آقا ﷺ نے ”ایک زمانہ ایسا آئے گا“ ”قربِ قی-امت کی نشانیوں میں سے ہے “ ”قی-امت اس وقت تک قائم نہ ہوگی“یا اس جیسے دیگر الفاظ ارشاد فرما کر اللہ پاک کی طرف سے عطا کردہ اپنے علم کے ذریعے 14 سو سال پہلے ہی اس موجودہ اور آیندہ دور کے فت-نوں کی پیشن گوئی فرماتے ہوئے ہمیں ان کی بھڑکتی آ-گ سے اُٹھنے والے ش-را-روں سے اپنا دامن بچانے کی ترغیب دلائی۔ آئیے برکت و عبرت حاصل کرنے کے لئے چند احادیث مبارکہ اور ان کی شرح و وضاحت میں علماء کرام رحمہم اللّٰہ السّلام کے ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔ گھروالوں کے ہاتھوں ہل-اکت سیّد المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ اس شخص کے سوا کسی دین والے کا دین محفوظ نہ رہے گا

جواپنے دین کو لے کر ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ اور ایک سوراخ سے دوسرے سوراخ کی طرف بھاگے۔ اس وقت معیشت کا حصول اللہ پاک کو ناراض کیے بغیر نہ ہوگا۔ جب یہ صورتِ حال ہوگی تو آدمی اپنے بیوی بچوں کے ہاتھوں ہل-اکت میں پڑجائے گا، اگر بیوی بچے نہ ہوں گے تو والدین کے ہاتھوں اس کی ہل-اکت ہوگی اور اگر والدین بھی نہ ہوں تو اس کی ہل-اکت رشتے داروں یا پڑوسیوں کے ہاتھوں ہوگی۔‘‘صحابہ کرام علیہِم الرِضوان نے عرض کی : ’’ یارسولَ اللہ ﷺ ! یہ کیسے ہوگا؟‘‘ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’وہ اسے تنگیِ معیشت پر عار دلائیں گے، ا س وقت وہ اپنے آپ کو ہل-اکت کی جگہوں میں لے جائے گا۔‘‘ حدیث پاک سے حاصل ہونے والا سبق اس حدیث پاک پر خصوصاً وہ بہنیں غور کریں جو اپنے شوہروں کو ان کی آمدنی پرطرح طرح کے طعنے دیتے ہوئے اس طرح کی جلی کٹی باتیں سناتی ہیں: ’’ فُلاں نے اتنا بڑا مکان بنالیا، فُلاں کتنا خوشحال ہو گیا ہے ،

تم بھی تو کچھ کرو، تمہاری تنخواہ تو انتہائی نامعقول ہے اس میں تو گھر کے اخراجات ہی پورے نہیں ہوتے وغیرہ وغیرہ۔‘‘ نیز شوہر ملازمت و کاروبار سے جیسے ہی تھکا ہارا گھر آتا ہے اپنی فرمائشوں اور بچوں کی شکایتوں کے انبار لگا کر اس کو مالی حالات سے بیزار اور ذہنی اذیت میں گرف-تار کردیتیں ہیں۔ نتیجۃً بے چارہ شوہر ان کے طعنوں سے بچنے اور ان کی بے جا فرمائشیں پوری کرنے کے لئے حلال و حرام کی پروا کئے بغیرحُصولِ مال کے وبال میں پھنس کر بادلِ نخواستہ ناجائز ذرائع اختیار کر بیٹھتا ہے۔ جیسا کہ آیَندہ زمانے میں سراٹھانے والے فت-نوں کے بارے میں ایک حدیث شریف یہ بھی ہے۔ حلال و حرام کے معاملے میں بے پروائی حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ سیِّدعالم ﷺ نے فرمایا : ’’ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی کو اس بات کی کوئی پروا نہ ہوگی کہ اس نے کہاں سے حاصل کیا حرام سے یا حلال سے ۔‘‘ مروی ہے

کہ مرد سے تعلق رکھنے والوں میں پہلے اس کی زوجہ اور اس کی اولاد ہے ، یہ سب اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کریں گے کہ اے ہمارے ربّ پاک! ہمیں اِس شخص سے ہمارا حق دِلا، کیونکہ اِس نے کبھی ہمیں دینی اُمور کی تعلیم نہیں دی اور یہ ہمیں حرام کھلاتا تھا جس کا ہمیں علم نہ تھا۔ پھر اس شخص کو حرام کمانے پر اس قَدَر ما-را جائے گا کہ اس کا گو-شت جَھڑجائے گا پھر اس کو میزان کے پاس لایا جائے گا، فرشتے پہاڑ کے برابر اس کی نیکیاں لائیں گے تو اس کے عیال میں سے ایک شخص آگے بڑھ کر کہے گا: ’’میری نیکیاں کم ہیں‘‘ تو وہ اُس کی نیکیوں میں سے لے لے گا، پھردوسرا آکر کہے گا : ’’ تُو نے مجھے سُو-د کھلایا تھا ‘‘ اور اُس کی نیکیوں میں سے لے لے گا، اِس طرح اُس کے گھر والے اس کی سب نیکیاں لے جائیں گے اور وہ اپنے اہل وعیال کی طرف حسرت ویاس سے دیکھ کر کہے گا: ’’اب میری گردن پر وہ گن-اہ و مظ-الم رہ گئے جو میں نے تمہارے لئے کئے تھے ۔‘‘

فرشتے کہیں گے: ’’یہ وہ شخص ہے جس کی نیکیاں اِس کے گھر والے لے گئے اور یہ اُن کی وجہ سے جہ-نم میں چلاگیا۔‘‘ بد نصیبی غور کیجئے! اس شخص کی بد نصیبی کا کیا عالم ہو گا جس کی تمام نیکیاں اس کے اہلِ خانہ حاصل کر کے نجات پا جائیں اور وہ خود قلّاش رہ جائے۔ لہٰذاموقع غنیمت جانتے ہوئے خوابِ غفلت سے بیدار ہو جائیے اور اللہ پاک اوراس کے پیارے حبیب ﷺ کی فرماں برداری والے کاموں میں لگ جائیے کہیں ایسا نہ ہو کہ نیکیاں کرنا ہمارے لئے دشوار سے دشوار ہوتا جائے کیونکہ اللہ پاک کے مَحبوب ﷺ نے ایک ایسے وقت کی نشاندہی بھی فرمائی ہے جس میں سنت پر عمل کرنا، دین پر قائم رہنا اور اس راہ میں آنے والی تکالیف پر صبر کرنا بہت مشکل ہو گا۔ چنانچہ اس ضمن میں 2 فرامینِ مصطفی ﷺ سُنئے اور اپنے آپ کو قرآن و سنّت کا پابند بنانے کی کوشش کیجئے ۔ سنتیں اپنانا انگارہ تھامنے کی طرح ہوگا 1. رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’ اَلۡمُتَمَسِّكُ بِسُنَّتِىۡ عِنۡدَ اِخۡتِلَافِ اُمَّتِىۡ كَالْقَابِضِ عَلَى الْجَمْرِ‘‘ یعنی فسادِ امت کے وقت میری سنت کو تھامنے والا آ-گ کا انگ-ارہ تھامنے والے کی طرح ہوگا۔ 2. اللہ پاک کے مَحبوب ﷺ کا فرمان عالیشان ہے : ’’ يَاتِی عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ الصَّابِرُ فِيْهِمْ عَلَى دِيْنِهِ كَالْقَابِضِ عَلَى الْجَمْرِ‘‘ یعنی لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ان میں اپنے دین پر صبر کرنے والا انگ-ارہ پکڑنے والے کی طرح ہوگا۔‘‘ حکیم الامّت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں : ’’یہ زمانہ قریبِ قی-امت ہو گا جس کی ابتدا آج ہو چکی ہے ۔ فی زمانہ دین دار بن کر رہنا مشکل ہے ۔ آج داڑھی رکھنا، نماز کی پابندی کرنا دوبھر ہو گیا ہے ۔ سو-د سے بچنا تو قریباً ناممکن ہی ہے ۔‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’ جیسے ہاتھ میں انگ-ارہ رکھنا بہت ہی بڑے صابر کا کام ہے یوں ہی اس وقت مخلص، کامل مسلمان بننا سخت مشکل ہو جاوے گا۔‘

Leave a Comment