حضرت علی نے فرمایا جب کو ئی کسی پر جھوٹا الزام لگاتا ہے تو الزام لگانے والے کے ساتھ کیا ہوتا ہے

حضرت علی

;پاکستان ٹپس ! ایک شخص حضرت امام علی ؓ کی خدمت میں آیا اور دستِ ادب کو جوڑ کر عرض کرنے لگا یا علی فلاں شخص نے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ہے اب میں اس سے بدلہ لینا چاہتا ہوں بس یہ کہنا تھا تو امام علی ؓ نے فرمایا اے شخص تمہیں تو اس کا شکر گزار ہونا چاہئےیاد رکھنا میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا کہ جب بھی کوئی انسان کسی انسان پر جھوٹا الزام لگاتا ہے تواس وقت اللہ فرشتوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ اس جھوٹے الزام لگانے

والے انسان کے سارے نیک اعمال اس انسان کے نامہ اعمال میں لکھ دو جس پر اس نے جھوٹا الزام لگایا ہے اور یوں اس انسان کا نامہ اعمال نیکیوں سے خالی ہوجاتا ہےاے شخص اس سے زیادہ بہتر اور کیا ہوگا کہ بغیر مشقت کے اللہ نے تمہارے نامہ اعمال میں قبول شدہ نیکیاں رکھ دیں بات چل ہی رہی تھی کہ اتنے میں امام علی ؓ فرمانے لگےاے شخص میں نے اللہ کے رسول سے یہ بھی سنا کہ سب سے بڑا انتقام اللہ عدل پر امید رکھنا ہے یاد رکھنا جب کوئی انسان کسی انسان پر جھوٹا الزام لگاتا ہے تو اللہ کائنات سے مخاطب ہوکر یہ فرماتا ہے کہ اس کا بدلہ اس انسان سے میں لوں گا اور یوں جھوٹا الزام لگانے والا آنے والے وقت میں دنیا میں رُسوا ہوجاتا ہےاس کے کام بگڑنے لگتے ہیں

وہ پریشان ہونے لگتا ہےاللہ ایسے انسان کو عزیز رکھتا ہے جو اللہ کے ہونے والے عدل پر امید رکھتے ہیں صبر کرتے ہیں اللہ ایسے انسان کو مایوس نہیں کرتا وہ دنیا میں بھی سرخرو رہتے ہیں اور آخرت میں بھی عظیم اجر پاتے ہیں ۔کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشُبہ بُرا ہے لیکن کسی پر گناہوں اور برائیوں کا جھوٹا اِلزام لگانااِس سے کہیں زیادہ بُرا ہے۔ہمارے مُعاشرے میں جو برائیاں ناسُور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک تُہمت وبہتان یعنی جھوٹا اِلزام لگانا بھی ہے۔ چوری، رشوت، جادو ٹونے، بدکاری، خِیانت، ق تل جیسے جھوٹے اِلزامات نے ہماری گھریلو، کاروباری، دفتری زندگی کا سُکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ نبیِّ رَحمت،شفیعِ امّت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:

جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللھ عَزَّوَجَلَّ اس وقت تک رَدْغَۃ ُ الخَبال(یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا۔ اس) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔دشمنی، حسد، راستے سے ہٹانے، بدلہ لینے، سَستی شہرت حاصل کرنے کی کیفیات میں گُم ہوکر تُہمت و بہتان تراشی کرنے والے تو اِلزام لگانے کے بعد اپنی راہ لیتے ہیں لیکن جس پر جھوٹاالزام لگا وہ بقیہ زندگی رُسوائی اور بدنامی کا سامنا کرتا رہتاہے اور بعض اوقات یہی جھوٹا اِلزام غلط فہمی کی بِنا پر بھی لگادیا جاتا ہے، اس بات کو ایک فرضی حکایت سے سمجھئے، ایک گاؤں میں پنچائت لگی ہوئی تھی، معاملہ بھینس چوری کا تھا،

گاؤں کے اسکول کے ماسٹر صاحب بھی موجودتھے، اچانک ایک دیہاتی ہانپتا ہوا وہاں آیا اور بلند آواز سے کہنے لگا : ماسٹر جی! وہ بھینس آپ کے باڑے سے مل گئی ہے۔ یہ سن کر ماسٹر صاحب نے اپنا سر پکڑ لیا، پنچائیت کے لوگ بھی حیرت زدہ رہ گئے،.لیکن ماسٹر صاحب کے سامنے کچھ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی لہٰذا ایک ایک کرکے کِھسَک لئے۔ وہ دیہاتی بھی چلا گیا۔ ماسٹر صاحب شرمندگی اور افسوس کے مارے وہیں سکتے کے عالم میں بیٹھے رہے۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ دیہاتی دوبارہ بھاگتا ہوا آیا اور ماسٹر صاحب کے پاؤں پکڑ کر کہنے لگا: مجھےمعاف کردیں! وہ بھینس آپ کے باڑے سے نہیں بلکہ ساتھ والے باڑے سے ملی ہے۔ماسٹر جی صدمے کی حالت میں اتنا ہی کہہ سکے: اب تم سارے گاؤں میں اعلان بھی کروا دو تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ لوگ اب مجھے چور کے نام سے یاد کیا کریں گے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین

Leave a Comment